اسلام آباد(نیوزڈیسک)تحریک انصاف حکومت میں آئی تو عمران خان کی دعویٰ کیا ہے میرا اولین مقصد قانون کی بالادستی ہے ۔ عمران خان ہمیشہ سے اپنی تقاریر میں کہتے کہ قانون سب کیلئے ایک برابر ہونا چاہئے ،وہ ملکی نظامِ انصاف پر تنقید کرتے کہ ہمارے ملک میں طاقتور کو قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا جبکہ غریب اور بے بس لوگوں کیلئے قانون ہمیشہ سختی اپناتا ہے۔عمران خان ہمیشہ سے نظام انصاف پر بولتے تھے اسی وجہ سے شاید ان کی جماعت کا نام بھی پاکستان تحریک انصاف رکھا گیا۔ چنانچہ 2018میں عمران خان کی حکومت بنی تو لوگ پر امید تھے کہ اب نظام انصاف بہتر ہو گا۔ عوام پر امید تھے کہ عمران خان ایسی مثالیں قائم کریں گے کہ طاقتور کو قانون کا جواب دہ ہونا پڑے گا بالکل اسی طرح جیسے ایک غریب کیلئے قانون ہمیشہ سخت ہو تا ہےلیکن عمران خان کا یہ دعویٰ بھی دوسرے دعوئوں اور وعدوں کی طرح صرف سیاسی ڈرامہ ہی نکلا۔ عمران خان کی اپنی جماعت میں ایسے کئی رہنما شامل ہوئے جن پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات تھے تاہم عمرانی واشنگ پائوڈر سے ان کے کیرئیر پر لگے کرپشن اور بدعنوانی کے داغ دھو دیئے گئے جیسا ان سیاسی شخصیات کا نیا جنم ہوا ہو۔ کل کو جو چور تھے آج وہی ایماندار بن گئے کیونکہ ان کی سیاسی ہمدردیاں اب عمران خان کیساتھ تھیں۔عمران خان کی دیرینہ سیاسی کارکن شیریں مزاری بھی ایسے رہنمائوں میں شامل ہیںجو سنگین جرائم میں شامل ہیں۔ مبینہ طور پر شیریں مزاری اس وقت سرکار کی ہزاروں کنال اراضی پر قابض ہیں۔رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کے والد سردار عاشق حسین مزاری روجھان، راجن پور کے نامور فیوڈل لارڈ رتھےاور، ان کی ہزاروں ایکڑ اراضی تھی۔بھٹو صاحب نے لینڈ ریفارمز یعنی زرعی اصلاحات نافذ کیں تو مختلف زمین داروں کی زمین قبضے میں لے لی گئی۔(مبینہ طور پر) بعض دیگر جاگیر داروں کی طرح سردار عاشق مزاری نے بھی محکمہ مال کے مقامی اہلکاروں(پٹواری وغیرہ )کے ساتھ مل کر جعلی کاغذات بنوائے اور اپنی زمین مختلف کمپنیوں کے نام کر دی تاکہ حکومت اس کو حاصل نہ کر سکے۔پھر زمینوں کے اصل کاغذات اپنے قابل اعتماد پٹواری کے گھر رکھوا دیئےاور اس خدشہ سے کہ کہیں لینڈ ریفارمز والے ان کے گھر چھاپا نہ مار دیں۔ پٹواری نے بھی خوف کے مارے وہ کا غذات اپنے قابل اعتماد نائب قاصد کے گھر رکھوا دیئے۔بہرحال سردار عاشق مزاری پر محکمہ مال نے مقدمہ کر دیا جو چلتا رہا۔ سردار عاشق مزاری مال والوں کو کہتے کہ اصل ریکارڈ دکھاؤ تو ان کے پاس اصل ریکارڈ نہ ہوتا ، یوں کیس چلتا رہا۔حکومتیں بدلتی رہیں، سردار عاشق مزاری انتقال کر گئے، ان کے بعد ان کا بیٹا سردار ولی مزاری اور بیٹی شیریں مزاری وارث بنیں ۔یریں مزاری بعد میں سیاست میں آ گئیں۔ کیس پچاس سال تک چلتا رہا، وہ محکمہ مال سے محکمہ اینٹی کرپشن کے درمیان گھومتا رہا۔حتیٰ کہ 2018ءمیں پی ٹی آئی کی حکومت آگئی۔شہزاد اکبر نے اس وقت ڈاکٹر شیریں مزاری کی اس کیس میں سپورٹ کی اور چونکہ اس وقت ڈی جی اینٹی کرپشن اس کا دوست تھا ، اس لئے اس کیس کی تفتیش الماری میں بند کر دی گئی۔ بعدمیں اتفاق سے نیا ڈی جی اینٹی کرپشن ایک دبنگ افسر آ گیا جو دلیر ، جری اور کسی کی پروا نہ کرنے والا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اسے کہا کہ شیریں مزاری کو اس کیس میں تنگ نہ کرنا، ڈی جی اس پر چونک کر اس کیس کی طرف متوجہ ہوگیا۔اس نے تفتیش شروع کی اور کمال ہوشیاری سے (مشہور جاسوسی کردار شرلاک ہومز ) کی طرح اس نائب قاصد کے گھر تک پہنچ گیا اور اس کے بیٹے سے اصل کاغذات کا وہ بکسہ حاصل کر لیا۔ معاملہ چونکہ بگڑ گیا تھا، اس لئے عثمان بزدار نے ڈی جی اینٹی کرپشن کا تبادلہ کر دیا، مگر تب تک تحریک عدم اعتماد آ گئی اور کچھ بھی نہ ہوا۔اس دوران دبنگ افسر نے ایف آئی آر بھی درج کرا دی اور حکومت جانے کے بعد شیریں مزاری کو اسی کیس میں گرفتار کر لیا گیاجس پر واویلا مچایا گیا اور ڈرامہ کیا گیا کہ یہ گرفتاری نہیں اغوا ہے۔ شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے تو یہ الزام بھی لگایاکہ ان کی والدہ کو آرمی چیف نے اغوا کروایا تاہم بعد میں انہیں معافی مانگنی پڑی کہ وہ جھوٹ بول رہی تھیں۔ شیریں مزاری کو بھی گرفتاری کے چند گھنٹوں کے اندراسلام آباد ہائیکورٹ نے راتوں رات ہی ضمانت پر رہا کر دیا تھا تاہم شیریں مزاری اس کیس کے خوف میں اب مبتلا ہیں اور اداروں کیخلاف حملہ آور ہیں۔شیریں مزاری قبضہ شدہ رقبہ بچانے کی خاطر ملکی سلامتی کے اداروں کو ہدف بنا کر تنقید کر رہی ہیںاور کھیل رچایا جارہا ہے کہ ان کیساتھ ظلم ہوااور اس کھیل میں بیرونی سازش کا تڑکا بھی لگایا جارہا ہے۔شیریں مزاری اپنا ذاتی مفا…
اپنی چوری چھپانے کیلئے شیریں مزاری اداروں پر حملہ آور
