تازہ ترین

انسانی موٹاپا کم کرنے کیلیے پودے میں ایک نئے مادّے کی دریافت

ہانگ کانگ:( سن نیوز) موٹاپے پر تحقیق کرنے والے چینی سائنسدانوں نے پودوں میں ایک ایسا مادّہ دریافت کیا ہے جو موٹاپا کم کرنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔سائنسدان برسوں سے جانتے ہیں کہ موٹے افراد میں چربی گھلانے کا قدرتی عمل (فیٹ میٹابولزم) متاثر ہوکر سست پڑجاتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا موٹاپا بڑھتا جاتا ہے بلکہ انہیں موٹاپا کم کرنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔اس مسئلے کی جڑیں ’’مائٹوکونڈریا‘‘ میں پیوست ہیں جنہیں ’’خلیے کا توانائی گھر‘‘ (سیلولر پاور ہاؤس) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خلیوں کے اندر غذائی سالموں (مالیکیولز) کو توڑ کر توانائی پیدا کرتے ہیں جو ہماری بہت سی جسمانی ضروریات پوری کرنے کے کام آتی ہے۔صحت مند افراد میں مائٹوکونڈریا بالکل صحیح کام کرتا ہے لیکن موٹے افراد میں یہ چربی (چکنائی) کے سالمے توڑنے میں دشواری کا سامنا کرنے لگتا ہے اور یوں موٹاپا ایک مرتبہ شروع ہوجانے کے بعد بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔اس حوالے سے ’’بی ڈی این ایف‘‘ کہلانے والا ایک پروٹین بھی دریافت ہوچکا ہے۔ ویسے تو اس کا تعلق اعصابی خلیوں کی مرمت سے ہے لیکن حالیہ تحقیقات میں اسے چکنائی کے سالمات کو توڑ کر توانائی پیدا کرنے میں مائٹوکونڈریا کا مددگار بھی پایا گیا ہے۔موٹے افراد میں اس پروٹین کی بہت کم مقدار بنتی ہے اور نتیجتاً وہ مزید موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں ڈاکٹر چی بُن چان اور ان کے ساتھیوں نے یہی تحقیق مزید آگے بڑھاتے ہوئے اپنی توجہ ’’7,8-ڈائی ہائیڈروکسی فلیوون‘‘ نامی ایک مادّے پر مرکوز کو جو ’’بی ڈی این ایف‘‘ سے ملتا جلتا ہے اور ایک جنوبی امریکی پودے میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔نئے تجربات میں ڈاکٹر چی اور ان کے ساتھیوں نے ’’7,8-ڈائی ہائیڈروکسی فلیوون‘‘ کو پیٹری ڈش میں رکھے گئے، انسانی پٹھوں کے ایسے خلیوں پر آزمایا جن میں مائٹوکونڈریا کو متاثر کیا گیا تھا۔انہیں معلوم ہوا کہ ’’7,8-ڈائی ہائیڈروکسی فلیوون‘‘ نے چکنائی/ چربی توڑنے میں مائٹوکونڈریا کی بالکل اسی طرح سے مدد کی جیسے ’’بی ڈی این ایف‘‘ کرتا ہے۔اس کے بعد جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے موٹاپے میں مبتلا کیے گئے چوہوں پر یہی تجربات دوہرائے گئے جن سے معلوم ہوا کہ ’’7,8-ڈائی ہائیڈروکسی فلیوون‘‘ کے استعمال سے ان میں چکنائی کم ہونے لگی۔تو کیا ’’7,8-ڈائی ہائیڈروکسی فلیوون‘‘ سے موٹاپا کم کرنے والی کوئی نئی دوا بنائی جاسکتی ہے؟ ڈاکٹر چی بُن چان کو امید ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے۔تاہم یہ دریافت اس سمت میں پہلا قدم ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے دوسرے جانوروں پر آزمایا جائے گا اور کامیابی کی صورت میں انسانی طبّی آزمائشیں (کلینیکل ٹرائلز) شروع کی جائیں گی۔اگر یہ تمام مراحل کامیابی سے طے ہوگئے تو پھر بہت ممکن ہے کہ آئندہ آٹھ سے دس سال میں موٹاپے کی ایک نئی، منفرد اور مؤثر دوا دستیاب ہوجائے۔