تازہ ترین

پاکستان موسمیاتی تبدیلی

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر۔۔وارسا لاس اینڈ ڈیمیج میکنزم جس کے تحت پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے ذمہ دار ممالک سے زرتلافی لینے کا حق رکھتاہے
پاکستان میں حالیہ بارشیں موسمیاتی تبدیلی کا ہی اثر ہیں۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے۔موسمیاتی تبدیلی کا جائزہ لینے والے ادارے کے مطابق اس سال پاکستان میں اگست کے مہینے میں تین گنا زیادہ بارشیں ہوئیں۔ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں معمول سے 50 سے 75 فیصد زیادہ بارش موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہوئی، جس کے بعد سیلابی صورت حال سے 1400 سے زائد اموات ہوئیں اور تین کروڑ سے زیادہ آبادی متاثر ہوکر رہ گئی۔سندھ اور بلوچستان میں خصوصاََ 7سے 8گنا زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔مزید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات سو سال میں ایک بار ہوسکتے ہیں۔تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ بڑی مقدار میں گرین ہائوس گیسز کا اخراج اس طرح کی موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہا ہے۔ پاکستان کا ان گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر ہیں۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نے اپنی رپورٹ میں اس امکان کو بھی ظاہر کیا ہے کہ گرمیوں کی شدت میں اضافہ تباہ کن بارشوں کی شدت کو بھی بڑھا دے گا اور آئندہ بھی ایسی تباہی مچانے والی بارشیں برسنے کا قوی امکان ہے۔پاکستان میں تین کروڑ آبادی ان حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال سے شدید متاثر ہے۔ لاکھوں گھر تباہ ہو چکے ہیں اور وسیع رقبے پر کاشت فصلیں بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں کی تعداد میں مویشی بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں جس کی وجہ سے آنیوالے وقت میں پاکستان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے عوامل میںپاکستان کا اتنا کردار نہیں جتنا پاکستان کو اس کا نقصان اٹھا نا پڑ رہا ہے۔ پاکستان امیر اور ترقی یافتہ ممالک کی غلطیوں کا خمیازہ اٹھا رہا ہے۔ صنعتی ترقی نے جہاں ان ممالک کی معیشت کو تو بہتر کیا ہے وہیں قدرتی ماحول کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے ۔ اسی نقصان کا خمیازہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک بھگت رہے ہیں۔پاکستان میں حالیہ سیلابی صورتحال میں سارا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے جس کی دوبارہ تعمیر میں بھی سالوں کی محنت اور اربوں کھربوں معاوضہ درکار ہے۔پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ہماری معیشت اس قابل نہیں کہ ہم اکیلے ان مشکلا ت کا مقابلہ کر سکیں ۔ حتیٰ کہ دنیا میں کہیں بھی کسی ملک میں بھی ایسی آفت آجائے جہاں بیک وقت کروڑوں افراد متاثر ہوں تو اس آفت سے وہ اکیلا لڑ نہیں سکتا۔ عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کو اس مشکل وقت میں بھرپور سپورٹ کریں ۔ یہ قدرتی آفت انہی کی ترقی کی وجہ سے پاکستان کے گلے پڑی ہے ۔انٹرنیشنل کمیونٹی اور لیڈرز نے بھی پاکستان کے حق میں اپنی آواز بلند کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ جو ہوا یہ نا انصافی پر مبنی ہے۔گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کا جائزہ لیا جائے توصنعتی ترقی کے بعداب تک ڈیڑھ ٹریلین ٹن کاربن کا اخراج ہوا۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ 25فیصد امریکا کا ہے، جبکہ یورپی یونین کا حصہ 22فیصد اور پاکستان کا پڑوسی ملک چین بھی اس میں 12فیصدگیسوں کے اخراج کا ذمہ دار ہے۔سالانہ کاربن ایمیشن پر نظر ڈالی جائے تو چین سالانہ 9.8فیصد، امریکا5.3فیصد جبکہ یورپی ممالک 3.5فیصدکاربن سالانہ اخراج کر رہے ہیں۔فجی کے وزیراعظم نے بھی اس سلسلے میں کہا کہ اس قدر موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں بلکہ وہ سب ترقی یافتہ ممالک اس کے قصوروار ہیں جن کا گرین ہائوس گیسوں کا اخراج انتہائی زیادہ ہے۔جبکہ برطانوی لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربین نے بھی پاکستان کے حق میں آواز اٹھا ئی اور کہاکہ موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان ، چین اور یورپ کو شدید سیلابی صورتحال کا سامنا ہے اور پاکستان کو اس وقت عالمی برادری کی سپورٹ کی اشد ضرورت ہے۔اسی طرح برطانوی لیبر پارٹی کی رہنما بیل ریبیرو ایڈی نے بھی پاکستان کیلئے عالمی سپورٹ کیلئے آواز اٹھائی اور کہا کہ جن ممالک کا موسمیاتی تبدیلیوں میں کردار زیادہ ہے انہیں آگے آنا چاہئے اور پاکستان کو سپورٹ کرنا چاہئے ۔برطانوی ایم پی کلاڈیا ویب نے پاکستان کی حالیہ صورتحال کا مقدمہ دنیا کے سامنے ایسے رکھا کہ پاکستان کے قرضوں کی معافی کی اپیل بھی کی اور موسمیاتی تبدیلی کا زرتلافی دینے کا مطالبہ کیا ۔اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھی چند ہفتے قبل پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان میں سیلابی صورتحال دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور کہا یہ تباہی نا قابل یقین ہے۔ انہوں نے دنیا کو خبردار کیا کہ آج اگر پاکستان اس موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر ہے تو کل کوئی اور ملک ہو گا اس لیے عالمی ذمہ داری بنتی ہے کہ پاکستان کو اس مشکل حالات سے نکالا جائے ۔ جس قدر ممکن ہو مالی سپورٹ کی جائے اور موسمیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے عناصرپر بھی حکمت عملی تیار کی جائے ۔عالمی سطح پر ایک ایگریمنٹ جسے’’ وارسا لاس اینڈ ڈیمیج میکینزم ‘‘جو کہ پیرس اگریمنٹ کا بھی حصہ ہے اس میں واضح ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہونیوالے نقصانات کا ازالہ کرنا ترقی یافتہ ممالک کی ذمہ داری ہو گی تاہم اس معاہدے کے ذریعے فنڈنگ انتہائی کم ہےاور پاکستان میں حالیہ سیلابی صورتحال کیلئے تو کسی بھی طور پر ممکن نہیں۔ اقوام متحدہ نے موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئےپاکستان کیلئے 16 کروڑ ڈالر کی ابتدائی فنڈنگ کا مطالبہ کیا تھا لیکن اب تک اس رقم میں سے صرف 3 کروڑ 83 لاکھ 50 ہزار ڈالر امداد میں تبدیل ہو سکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ریزیڈینٹ اینڈ ہیومن کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس نے بتایا کہ ہم اپنی فنڈ ریزنگ مہم میں بہت کامیاب رہے ہیں، اور موجودہ حالات میں 15 کروڑ ڈالر کے وعدے بہترین ہیں۔جولین ہارنیس نے امدادی کارروائیوں کے بارے میں ایک پریس بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ مرکزی عطیہ دہندگان میں امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جاپان، ڈنمارک، آسٹریلیا، سنگاپور اور دیگر ممالک شامل ہیں، اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے سینٹرل ایمرجنسی رسپانس فنڈ نے ایک کروڑ ڈالر اکٹھے کیے ہیں۔تاہم ابھی مزید بڑ ی امداد اکٹھا کرنی ہو گی تاکہ پاکستان میں کروڑوں سیلاب متاثرین کی زندگی معمول پر لائی جاسکے۔