تازہ ترین

ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کا تنازع، ایسا پہلو جس پر بحث نہیں ہوئی

اسلام آباد (انصار عباسی) کئی برسوں سے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کے تقرر کا معاملہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان زبانی معاملہ رہا ہے اور وزیراعظم آفس، داخلہ ڈویژن یا پھر وزارت دفاع میں شاید ہی کوئی ایسا ریکارڈ موجود ہوگا جس میں باضابطہ طور پر (وزیراعظم کیلئے) سمری ارسال کی گئی ہو جس میں آئی ایس آئی کے چیف کے عہدے کیلئے شارٹ لسٹ کیے گئے افسران کے ناموں کا پینل پیش کیا گیا ہو۔ سویلین بیوروکریسی کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر ہونے والے حالیہ تنازع کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جس پر بحث ہی نہیں کی گئی اور اس پہلو سے وزیراعظم آفس کی بیوروکریسی کی نا اہلی بے نقاب ہوتی ہے۔ ذرائع کا اصرار ہے کہ جن لوگوں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ وہ شارٹ لسٹ کیے گئے افسران کا پینل اور فوج سے سمری طلب کریں، انہیں اصل میں طے شدہ روایت کا علم ہی نہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو کیسے تعینات کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کی گڑ بڑ اُس بھی ہوئی تھی جب آرمی چیف کو عہدے میں توسیع دی گئی تھی اور اس معاملے میں بھی یہ بیوروکریسی ہی ہوتی ہے جو سیاسی آقائوں کو رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ اصل ضابطے اور طریقہ کار کیا ہے، لیکن اُس وقت بھی یہی بیوروکریسی تھی جو معمولی نوٹیفکیشن کا مسودہ لکھنے میں ناکام رہی جس سے عمران خان کی حکومت کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی۔ ذرائع کا کہنا ہے ماضی میں یہی کام کامیابی سے ہوتا رہا ہے اور اس میں کبھی کوئی تنازع بھی پیدا نہیں ہوا لیکن جو کچھ اب ملک میں ہو رہا ہے اس کی وجہ ماضی میں کی گئی تقرریوں کے طریقہ کار اور ضابطوں سے لاعلمی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمومی طور پر طریقہ کار یہ ہے کہ آرمی چیف ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے حوالے سے زبانی وزیراعظم سے بات کرتے ہیں جس کے بعد وزیراعظم اثبات میں اپنی منظوری دیتے ہیں جس کے بعد آرمی چیف آفس ایک نوٹ جاری کرتی ہے جو وزیراعظم کو بھیجا جاتا ہے جو اس پر دستخط کر دیتے ہیں یا پھر ڈی جی آئی ایس آئی کےعہدے پر تقرر کیلئے افسر کے نام کے آگے نشان لگا دیتے ہیں۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کی زبانی بات چیت کے بعد عموماً ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کا اعلان آئی ایس پی آر کرتا ہے۔ اس معاملے میں وزارت دفاع یا داخلہ یا کسی اور وزارت کی جانب سے کوئی سمری ارسال نہیں کی جاتی۔ اس معاملے میں کوئی وزارت شامل نہیں ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم آفس نے ملٹری کی تقرریوں کے حوالے سے پی ایم آفس میں ماضی میں پیش کردہ سمریاں تلاش کیں لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تقرر کیلئے کوئی سرکاری مشاورت نہیں کی جاتی مثلاً سیکریٹریوں یا وزارتوں کو شامل کرنا۔ ایسی بھی کوئی مثال نہیں کہ ڈی جی کے عہدے پر تقرر کیلئے افسران کے پینل کو شارٹ لسٹ کیا جائے اور اُن میں سے کسی ایک کو منتخب کیا جائے۔ آزادی کے بعد آئی ایس آئی ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت قائم کی گئی تھی۔ اس ادارے کے حوالے سے کبھی کوئی قانون سازی کی گئی اور نہ ہی اس کے کردار کے حوالے سے۔ ابتدائی طور پر ادارے کا مینڈیٹ ملک میں دشمن کی مداخلت کا پتہ لگانا تھا کیونکہ آزادی کے ابتدائی دنوں میں اندیشہ تھا کہ دشمن ملک کے جاسوس ملک کی دفاعی سرحدوں کو عبور کرکے گھس سکتے ہیں۔ ایجنسی کو ذوالفقار بھٹو کے دور میں سیاسی کردار ملا۔ بھٹو نے آئی ایس آئی میں سیاسی سیل قائم کیا۔ آنے والے برسوں اور دہائیوں میں آئی ایس آئی نے اپنے اسٹریٹجک آپریشنز کو وسعت دینے میں نمایاں کام کیا تاکہ ملک کی سیکورٹی اور دفاع کو مضبوط کیا جا سکے۔ افغان جنگ کے تناظر میں آئی ایس آئی کی صلاحیتوں میں اضافہ اور اہم ممالک کی ایجنسیوں کے ساتھ پارٹنرشپ بیحد ضروری تھی۔ بعد میں ادارے کا اسکوپ اور آپریشنز انسداد دہشت گردی اور انسداد جاسوسی (کائونٹر انٹیلی جنس) تک بھی بڑھا دیا گیا۔ بدقسمتی سے، ایجنسی کو اکثر و بیشتر سیاسی جوڑ توڑ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے جو بصورت دیگر اس ادارے کی شاندار کارکردگی، ملک و قوم کی سلامتی اور پاکستان کے دفاع اور آپریشنز پر ایک داغ بن کر سامنے آیا۔ آج آئی ایس آئی کو دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔