تازہ ترین

عمران خان کل اور آج

عمران خان کا ہمیشہ سے سیاست میں دوہرا معیار رہا ہے۔جو بات دوسروں کیلئے ناجائز ہوتی ہے وہ عمران خان کیلئے جائز ہوتی ہے۔ عمران خان خود تو لوٹوں کے سہارے حکومت میں آسکتے ہیں لیکن اگر ان کی جماعت سے کوئی رکن دوسری جماعت میں چلا جائے تو اس کو ضمیر فروش قرار دیدیا جاتا ہے۔ حالانکہ عمران خان کی اپنی جماعت تحریک انصاف میں اکثریت ان سیاستدانوں کی ہے جن کا مسکن تحریک انصاف سے پہلے مسلم لیگ (ن)،مسلم لیگ (ق)اور پیپلزپارٹی تھیں۔ عمران خان کی جماعت میں ان رہنمائوں کی تعداد بہت کم ہے جو شروع سے عمران خان کیساتھ چلے آرہے ہیں۔تحریک انصاف کے بانی ارکان میں سے اکثریت تو عمران خان سے نالاں ہے اور پارٹی چھوڑ چکی ہے کیونکہ ان کے خیال میں تحریک انصاف جس مقصد کیلئے بنی تھی اس کو بھلا دیا گیا ہے۔ان رہنمائوں میں جسٹس وجیہہ الدین ، اکبر ایس بابراور حامد خان جیسی معتبر شخصیات شامل ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کیخلاف علم بغاوت بلند کیا۔آجکل وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن موضوع بحث بنا ہوا ہے اور تحریک انصاف نے خوب ڈرامہ رچایا ہوا ہے کہ ان کے ارکان کو خریدنے کی کوشش کی جارہی ہےاور ان کے کئی ضمیر فروش ارکان نے سودا کر لیا لیکن کیا یہ تحریک انصاف اس وقت سو رہی تھی جب چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور سینیٹ میں کم سیٹیں ہونے کے باوجود اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت نے وہ تحریک ناکام بنائی۔زیادہ پرانی بات نہیں، محض تین سال پہلے اگست دوہزار انیس میں ایوان بالا میں چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لے آئی۔ سینٹ میں اپوزیشن کی اکثریت تھی، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کے پاس چونسٹھ ووٹ تھے۔۔ اور اس کے مقابلے میں حکومت وقت پی ٹی آئی کے پاس صرف چھتیس نمبر تھے۔ بظاہر اپوزیشن کی کامیابی یقینی تھی مگر جب ایوان میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی شروع ہوئی تو تحریک پیش کرنے کے حق میں چونسٹھ ووٹ پڑے لیکن جب صادق سنجرانی کیلئے خفیہ رائے شماری ہوئی تو یہ تعداد محض پچاس رہ گئی۔ چودہ اراکین منحرف ہو گئے۔ پریذائیڈنگ افسر نے پانچ سینیٹرز کے ووٹ مسترد کر دئیے اور یوں حکومت اقلیت میں ہونے کے باوجود جیت گئی اور اپوزیشن اکثریت میں ہو کر بھی شکست کھا گئی۔ یہ چودہ منحرف اراکین اس وقت پی ٹی آئی کی نظر میں روشن ضمیر ٹھہرے۔عمران خان ہمیشہ دوسروں پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگاتے رہے ہیں لیکن وہ خود بھی کسی سے کم نہیں۔ انہوں نے اپنے مفاد کیلئے ہارس ٹریڈنگ کو جائز اور دوسری جماعتوں کیلئے ناجائز قرار دیا ہوا ہے۔ وہ کسی کو لالچ دے کر خرید لیں تو ضمیر جاگ گیا لیکن اگر ان کی جماعت سےکوئی چلا جائے تو اس پر ضمیر فروش کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ اسے طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہاں تک کے عمران خان تحریک انصاف چھوڑنے والوں کے بچوں کو بھی معاف نہیں کرتے ۔ یاد رہےکہ انہوں نے منحرف ارکان کو دھمکی دی تھی کہ آپ کے بچے سکول نہیں جا سکیں گے اور آپکے بچوں کی شادیاں بھی نہیں ہو سکیں گی تاہم عمران خان کی دھمکیاں تو محض گیدڑ بھبکیاں تھیں ۔ہارس ٹریڈنگ پاکستان سیاست کا انتہائی غلیظ عمل ہے لیکن بلاتفریق کسی کو بھی اس عمل کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ایسا نہیں کہ ہارس ٹرینڈنگ تحریک انصاف کیلئے تو جائز ہو لیکن مخالفین کیلئے ناجائز۔ چئیرمین پی ٹی آئی اپنے قول فعل میں تضاد رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں کئی بار سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔