تازہ ترین

کوئی ناگزیر نہیں

ابوالمیلاد
آج دنیا کا بہترین عہدہ چھوڑنے پر افسردہ ہوں مگر سیاست میں کوئی بھی ذرا برابر ناگزیر نہیں ہوتا۔ یہ الفاظ تھے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے۔ بورس جانسن نے سات جولائی کو وزارت عظمی سے استعفی دیا تھا۔ تاریخ کے اس اصول کو ہم اپنی سیاست میں رکھ کر دیکھیں تو قوم کو قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جیسا زیرک سیاستدان ملا، بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھا دیا گیا مگر ملک رکا نہیں، سیاست بانجھ نہیں ہوئی، جنرل ضیا کے مارشل لا کے مقابلے کیلئے تحریک بحالی جمہوریت شروع ہوئی، محترمہ بے نظیر بھٹو، میاں محمود علی قصور، بیگم نصرت بھٹو، مولانا فضل الرحمان، نوابزادہ نصراللہ خان، ملک قاسم اور معراج محمد خان نے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ بعدازاں محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نوازشریف باری باری میں اقتدار میں آئے، سیاست چلتی رہی۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہونے کے باوجود سیاست کی کوکھ سے ہی باوردی صدر کی وردی اتری اور جمہوری عمل دوبارہ سے شروع ہوا اور گزشتہ چودہ برسوں سے ملک میں یہ جمہوری عمل جاری و ساری ہے۔
جمہوریت کے اس سفر میں بے شمار خلا ہوں گے، ان گنت مسائل بھی ہوں گے، ان چودہ برسوں میں چھ وزرائے اعظم تبدیل ہوئے، مگر سسٹم چلتا رہا، یوسف رضا گیلانی گھر بھیجے گئے تو راجہ پرویز اشرف آ گئے، حکومت کی مدت پوری ہوئی، میاں نوازشریف نااہل ہوئے تو شاہد خاقان عباسی آ گئے، حکومت کی مدت پوری ہوئی اور پھر عمران خان کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہوا، گھر بھیج دئیے گئے مگر میاں شہبازشریف بطور وزیراعظم کام جاری رکھے ہوئے ہیں، اسمبلیاں موجود ہیں، مقننہ کام کر رہی ہے، پارلیمانی کمیٹیاں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ یہ کہنا درست ہے کہ اس دوران کئی بار ایسے مواقع آئے جہاں جمہوریت اور آمریت کے بیچ میں چند فٹ کا فاصلہ باقی بچا تھا مگر قومی سلامتی کے اداروں نے انتہائی برداشت اور دانش مندی سے جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہیں دیا۔ عمران خان کی جانب سے ڈی جی آئی ایس کے نوٹیفکیشن کے معاملے کو سامنے رکھا جائے تو حالات کی سنگینی سے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی غیر آئینی رولنگ وہ موقع تھا جب بآسانی جمہوریت کی گردن دبوچی جا سکتی تھی مگر پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت پسند ہونے کا ثبوت دیا اور جمہوری نظام کو زک پہنچانے کی بجائے مضبوط کرنے کو ترجیح دی۔ پرامن انتقال اقتدار کی اس فراہمی نے جمہوری عمل کو تقویت بخشی ہے۔
اب حالیہ پنجاب کے ضمنی الیکشن کو دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف پہلے دن سے ہی دھاندلی اور ریاستی اداروں کے کردار پر سوال اٹھا رہی تھی، عمران خان الزامات عائد کر رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن تحریک انصاف کو شکست دینے پر تلا ہے، یہ الزامات بھی لگائے جاتے رہے کہ مسٹر ایکس اور مسٹر وائی لاہور میں بیٹھ کر پی ٹی آئی مخالف مہم چلا رہے ہیں، یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ الیکشن کمیشن متعصب ہے اور ن لیگ کا حامی ہے۔ یہ اور اس طرح کے سنگین الزامات کے باوجود مگر پنجاب کے ضمنی انتخابی نتائج نے خود پی ٹی آئی ہی کو ورطہ حیرت میں مبتلا کر دیا، حکومت میں ہوتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن بیس میں سے صرف پانچ نشستیں جیت پائی اور پاکستان تحریک انصاف پندرہ حلقوں میں کامیاب ہو گئی، پاکستان تحریک انصاف ن لیگ کے گڑھ سے تین سیٹیں نکالنے میں کامیاب رہی۔ پنجاب کے یہ نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاستی اداروں نے صاف و شفاف الیکشن کا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ وہ پی ٹی آئی جو مسلسل پاک فوج، آرمی چیف اور الیکشن کمیشن پر الزام عائد کر رہی تھی اب وہ ان الزامات پر قوم اور قومی اداروں سے معافی مانگے گی۔ ریاستی اداروں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ان کیلئے کوئی ناگزیر نہیں، ان کیلئے اگر کوئی چیز ضروری ہے تو وہ آئین اور قانون ہے۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی واضح جیت اس امر کا بھی ثبوت ہے کہ قومی ادارے صرف اور صرف جمہوریت کے ساتھ ہیں، ان کیلئے عمران خان، نوازشریف اور آصف علی زرداری کوئی اہم نہیں۔ پنجاب کے ان انتخابی نتائج سے یہ بھی طے ہو گیا کہ جس امریکی سازش کے بیانیے کو لے کر عمران خان قوم کو اکسا رہے تھے وہ بیانیہ پہلے عدالتی فیصلے سے دفن ہو گیا اور پھر عمران خان کی جیت نے بھی اس بیانیے سے مکمل ہوا نکال دی، اگر پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں ناکام ہو جاتی تو عمران خان کا یہ بیانیہ سر چڑھ کر بولتا کہ امریکی سازش ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو شکست ہوئی اور اب عمران خان کے پاس کوئی نیا نعرہ نہیں، کوئی نیا بیانیہ نہیں۔
اگر عام انتخابات کی راہ ہموار ہو جاتی ہے تو سوال یہ ہے عمران خان کون سے نئے نعرے کے پیچھے قوم کو لگائیں گے۔ان کی ساڑھے تین سال کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے، احتساب کا بیانیہ پہلے ہی پٹ گیا اور اب امریکی سازش اور ریاستی اداروں کی مداخلت کا بیانیہ بھی دم سادھ گیا ہے۔عمران خان نے پنجاب کی اپنی ہی بیس نشستوں سے پندرہ سیٹیں جیت لیں مگر سچ تو یہ ہے کہ اب عمران خان اداروں کے خلاف بول سکتے ہیں، نہ ہی سازش سازش کا راپ الاپ سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر ہمارا مسئلہ خود کو ’’ناگزیر’’ سمجھ لینا ہے، مجھے یاد ہے جب پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا تو انہوں نے کہا تھا پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ مگر اس کے باوجود نہ صرف پاکستان قائم و دائم ہے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور توانا ہے۔ عمران خان بھی خود کو ناگزیر سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے وزرائے اعظم کی کرپشن ثابت ہو جائے، انکوائریاں شروع ہو جائیں اور یہ ایوان تک کی اکثریت کھو دیں مگر اس کے باوجود باعزت گھر جانا پسند نہیں کرتے، اقتدار سے چمٹے رہنے کی اس روش نے یہاں سازشوں کو پنپنے کا موقع بخشا ہے۔ ’’لوٹوں‘‘ کا جنم بھی اسی رویے کی کوکھ سے ہوتا ہے، جان کو خطرہ ہے کی دہائیاں بھی ’’میں ہی ناگزیر ہوں‘‘ کے رویے کی دین ہیں۔ قدرت کے اصول کسی شخص کیلئے بدل نہیں سکتے اور تاریخ کے بے رحم اصول بھی کسی عمران، نواز، زرداری کیلئے بدل نہیں سکتے۔