تازہ ترین

ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم شرمندہ ہیں!!!

اس قوم کیلئے، کام کرنے پر افسوس ہے۔ لوگوں سے ناراض نہیں ہوں۔ وہ بہت محبت کرتے ہیں۔ ناراض غدار حکمرانوں سے ہوں۔ جو ہمیں غدار بتاتے ہیں۔ اب اس قوم کو ہم کچھ نہیں بتائیں گے۔‘‘یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے 2010ء کے ایک انٹرویو کا اقتباس ہے۔ جو انہوں نے کوہسار مارکیٹ کے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر دی ۔سیکیورٹی اداروں کی طرف سے پہلے گھر میں کیمرے نہ آنے دیئے گئے۔ پھر کوہسار مارکیٹ میں کرسیوں پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ کئی، کئی ماہ ،وہ بیٹی اور نواسیوں کو نہیں ملنے دیا جاتا ہے۔ جو چند سو فٹ کے فاصلے پر میری ہی گلی میں رہتے ہیں۔ ان کے چہرے پر ثبت کرب، آنکھوں کی اداسی اور لفظوں میں چھپی بے بسی اورچبھن بتا رہی تھی کہ حکمرانوں نے اُن کے ساتھ زیادتی نہیں ظلم کیا ہے۔ عوام تو واقعی ہی اُن سے محبت کرتے تھے۔ کئی سال قبل جب اُن کا پراسٹیٹ آپریٹ ہوا۔ تو لوگوں نے ہسپتال کے باہرہزاروں کی تعداد میں پُھول رکھ کر، ان سے اپنی عجیب محبت کا ثبوت دیا۔ سب حیران رہ گئے۔ قوم اپنے ہیرو کو نہیں بھولی تھی۔مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب2004 ء میںڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قربانی کا بکرا بنا کر، ان سے ٹی۔ وی پر معافی منگوائی جارہی تھی۔ تو میرے کرکٹ کے کوچ فیاض خان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ان کی مسلسل ایک ہی گردان تھی۔ قدیر خان بے قصور ہے۔ صاف نظر آرہا ہے۔ اُسے مجبور کرکے بٹھایا گیا ہے۔ پڑھے گئے، لفظ اُس کے ہیں ہی نہیں۔ لیکن ریاست اور قوم کیلئے اُس شخص نے وہ تمام گناہ قبول کرلئے۔مٹی کی محبت میں !!!ہمہ شفتہ سروں نےوہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے(افتخار عارفؔ)پھر شیخ رشید کی وہ رعونت اور فرعونیت بھری گفتگو خود سنی۔ جب مشرف حکومت میں بطور وزیراطلاعات،وہ صحافیوں کو بتا رہے تھے کہ قدیر خان رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔ ان کی ’’بیٹھوں کے نشانات‘‘ (پنجابی محاوہ) ہر طرف تعفن دے رہے ہیں۔ وہ شخص آج ان کے جنازے کی صفِ اول میں کھڑا ہے۔ کیا ’’ریاکاری‘‘ ہے۔ کتنے ہی اُن کے دشمن، ان سے حسد کرنے والے کہتے ہیں کہ ’’یورینیم افزودگی‘‘ کے علاوہ، ان کا ایٹم بم کی تیاری میں کوئی کردار نہیں ہے۔ اگر اتنے اعلیٰ درجے کا وہ یورینیم فراہم نہ کرتے تو، آپ چھنکنے بجاتے رہتے۔پاکستان تو ایک عرصے سے پروٹینیم کے ذریعے ایٹم بم بنانے کی ناکام کوششیں کررہا تھا۔ رہ گئی بات کمپنیوں کے کمیشن کی، تودفاعی سودوں میں کمیشن اُس کا ایک لازمی جُزو ہے۔ یہ تو سب کو پتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسے کمیشن لینے سے انکار کردیا تھا۔ مجبوری تھی کہ پاکستان اور درکار آلات اور مٹیریل پابندی کی زد میں تھے۔ اس لئے سائنس دانوں کے پرائیویٹ ناموں سے کمپنیاں کھولی گئی تھیں تو لازمی طور پر کمیشن اُنہی کے اکائونٹ میں آنا تھا۔ اُسے لیا جانا بھی ضروری تھا۔ تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔ اس کا حل یہ نکالا گیا تھا کہ وہ ’’کمیشن ایک خاص اکائونٹ میں اکٹھا کرکے، اسے تعلیم سمیت اہم قومی خدمات پر خرچ کیا گیا۔‘‘ ڈاکٹر صاحب، معصوم شخص تھے۔ ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ اے۔ کیو خان ریسرچ لیبارٹری نے ایٹمک، میزائل پروگرام سمیت اہم دفاعی ہتھیاروں کی جدت میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں ہیں۔وہ غلام اسحاق خان، سابق صدر کو سب سے زیادہ محب الوطن سمجھتے تھے۔ اسی لئے انھوں نے غلام اسحاق خان کے نام سے جی۔ آئی۔ کے(GIK)انسٹیٹیوٹ کی داغ بیل ڈالی۔انہوں نے کمال جملہ کہا کہ کچھ لوگوں کا ہیرو، رنجیت سنگھ ہے۔ مگر میرا ہیرو ، شہاب الدین غُوری ہے۔ جس نے اسلامک ریاست کی بنیاد رکھی۔ اسی لئے ان کے شایان شان انکا نیامزار بنوایا۔ڈاکٹر قدیر خان نے کس ، کس کی مدد نہیں کی۔ باقی شعبوں کے لوگوں کو چھوڑیں۔ کتنے ہی قلم کار تھے۔ جو اُن سے ملنے کے بعد، آسودگی میں آئے۔ جیسے ٹمبکٹو میں کسی غریب آدمی کو انہوں نے ہوٹل بنا کر دیا۔لوگوں نے الزام لگا دیا کہ یہ اُن کا اپنا ہوٹل ہے۔ انھوں نے اس کے جواب میں ہنس کر اتنا ہی کہا کہ اگر مجھے انوسٹمنٹ کرنی تھی تو کسی بہتر جگہ پر کرتا۔ انھیں اپنی بیٹیوں کی ناکام گھریلو زندگی کے دکھ بھی اٹھانے پڑے۔ سب سے بڑھ کر اپنی غیر ملکی اہلیہ کی سخت تکالیف، جو پرویز مشرف دور میں شروع ہوئیں۔ اُن میں شاید ہی کچھ کمی ہوئی ہو۔ مگر اُن کے لئے، جمالی، شوکت عزیز، زرداری، نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور’’ریاست مدینہ‘‘ کے تین سالوں میں بھی کوئی قابل ذکر ریلیف نہیں ملا۔ 2004ء کے بعدوہ ایک آزاد شہری کی زندگی، ایک دن بھی نہیں گزار سکے۔ وہ مسلسل پابندیوں اور نگرانی میں رہے۔ البتہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’عسکری حکمران قدیر خان کو غیر ملکی آقائوں کے حوالے کرنےکا ارادہ رکھتے تھے۔ ظفر اللہ جمالی ڈٹ گئے۔ انھوں نے بطور وزیراعظم اس سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ وہ اس کیلئے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مگر یہ داغ اپنے دامن پر لینے کو تیار نہیں ہیں۔ میرا ذریعہ بہت معتبر ہے۔ جمالی صاحب، اس دنیامیں نہیں رہے۔ مگر ختم نبوتﷺ کے مسئلے پر نواز دور میں ہونیوالی 42ترامیم پر، جو انہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کی اور جیسے حکومت کو لتاڑا تھا۔ وہ بتاتی ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر قدیر خان کے مسئلے پر واقعی ’’اسٹینڈ‘‘ لیا ہوگا۔ کتنی عجیب بات ہے کہ نواز لیگ، ختم نبوتﷺ پر ننگی ہوگئی۔ اور آج بھی ہیرو ہے۔ جبکہ ہیرو کو ولن بنا دیا جاتا ہے۔قارئین!!!ڈاکٹر قدیر خان کے پر کاٹنے کی ابتدا، نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں شروع ہوئی۔ ایٹمی دھماکہ سے پہلے اور بعد، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو ہیرو بنایا جانے لگا۔ ڈاکٹر قدیر خان کو ڈس کریڈٹ کیا جانے لگا۔ یہ وہی دن تھے جب ایٹمی دھماکے سے ایک ہفتہ پہلے ڈاکٹر قدیر خان کو متوقع دھماکوں کے عمل سے باہر کردیا گیا تھا۔ وہ بہت افسردہ تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی بھی کام اکیلا آدمی نہیں کرتا۔ بطور خاص ایسے بڑے پراجیکٹ کی ایک ٹیم ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو نسلوں کی محنت ہوتی ہے۔ تب کامیابی ہوتی ہے۔ بہت سے گمنام ہیرو ہوتے ہیں۔ جیسے غلام اسحاق خان حتیٰ کہ گجرانوالہ کا وہ مستری بھی جس نے سینٹری فیوزر میں تانبے میں آنیوالی آکسیجن کا مسئلہ حل کیا۔ وہ بھی ہیرو ہیں۔ جنہوں نے دنیا بھر سے ایٹمی پروگرام کیلئے درکار اسباب، سخت ترین پابندیوں کے باوجود پاکستان پہنچائے۔ اس پروگرام کی حفاظت کرنے والے، حتیٰ کہ وہاں صفائی کرنے والے کا بھی کردار ہے۔ مگر کپ تو کپتان کو ہی ملتا ہے۔ اگر قدیر خان کو عزت ملی ہے تو اُس کے خاندان کی زندگیاں کیا اُس سمیت دائو پر نہیں لگی ہوئی تھیں۔جنہوں نے اس ملک کی دولت لوٹی، دنیا بھر میں جا، جاکر چھپائی، وہ اور ان کی اولادیں، آج اس قوم کی ’’ان داتا‘‘ بنی ہوئی ہیں۔ جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ وہ مجرم ٹھہرے۔قارئین!!!ویسے آپس کی بات ہے۔ من حیث القوم، ہم کتنے احسان فراموش، محسن کش اور سطحی سوچ رکھنے والے ہیں۔ مردہ پرست قوم، یہ کہہ کر، یا لکھ کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ’’تیری یاد آئی، تیرے جانے کے بعد‘‘ اس کردار پر خود سمیت سب پر لعنت نہ بھیجوں تو کیا کروں۔صبح 7:04پر ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہوا۔ تین بجے جنازہ رکھ دیا گیا۔ بارش میں جنازہ ہوا۔ کیا فیصل مسجد، قوم کے اس عظیم سپوت کے لئے نہیں کھولی جاسکتی تھی۔ کیا اگلے روز جنازہ نہیں ہوسکتا تھا۔ تاکہ قوم اپنے ہیرو کو انتہائی، احترام، عقیدت سے رخصت کرنے کیلئے جُوق در جوق پہنچتی۔ کیا اس عظیم ہیرو کو فیصل مسجد کے احاطے میں دفن نہیں کیا جاسکتا تھا۔کتنے دکھ کی بات ہے۔ پاکستان دولخت ہوا تو، اُس کا دل ٹوٹ گیا۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آگیا۔ تاکہ یہ سانحہ دوبارہ بپا نہ ہو۔ بے تحاشا تکالیف کو گلے سے لگا لیا۔ اور ایسے ناکردہ گناہ،الزام بھی قبول کرلئے، جن کااُسے پتا بھی نہیں تھا۔ وہ اس ریاست اور قوم کے لئےقربانی کا بکرا بن گیا۔ یہ سب کچھ کرتے، کرتے وہ ٹوٹ گیا۔ اس نے کہا کہ کاش، وہ زندگی میں کچھ اور کرلیتا۔ریاست اور حاکم وقت نے ایک ’’جعلی‘‘ ریاستی تدفین کردی۔ اس غلطی سے البتہ ایک کام ضرور ہوا۔ ان پر لگے تمام الزامات قدرت نے دھلوا دیئے۔ ’’انھیں‘‘ ماننا پڑا کہ ’’ہم غلط تھے اور ہیں۔ جانیوالا واقعی ہیرو تھا۔ وہ غدار نہیں قوم کا محسن تھا۔ سب سے بڑھ کر ناراضگی اورخراج تحسین اور ناراضگی قدرت نے ظاہر کی۔ ناراضگی ریاست اور حکمرانوں سے ہے۔ بجلی کی کڑک اور بادلوں کی گرج نے لوگوں کے دل دھلا دیئے۔ جبکہ پہلے ہلکی اور پھر موسلا دھار بارش نے آسمان کے آنسو زمین پر بہائے۔ درخت، گھر، پہاڑ، زمین،منظر اور اس کی خلق روئی۔ اس ملک سے محبت کرنے والے روئے۔زمیں تو کھول دے آغوش اپنیتھکا ہارا !!! مُسافر آ رہا ہے آج پوری قوم کے دل زخمی ہیں۔ وزیروں اور عسکری دستے کو بھیج کر عمران خان، سپریم کمانڈر اور عسکری کمانڈرز سرخ رو نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کو عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنانے والے قدیر خان کےجنازے پر جانے کیلئے ان کے پاس وقت کیوں نہیں تھا ۔ختم نبوت ﷺ کانفرنس پر مولانا عمران خان کی دُعا انھیں آقانامدﷺار کے سامنے سرخرو نہیں کرسکتی۔ اس ریاکاری سے قوم اور قدرت کو کیسے مطمئن کیا جاسکتا ہے۔ قومی ہیرو کو اُس کے آخری سفر اور ابدی رہائش گاہ تک، تکلیف دی گئی۔ پوری قوم اور اس کا بچہ، بچہ قدیر خان کا مقروض ہے۔ وہ جائے اورجاکر، ایچ۔ ایٹ قبرستان اسلام آباد میں قبر نمبر16پر معافی مانگے۔ اور اپنے اوپر لدے قرض کو اتارے۔ وگرنہ کوئی ماں ہیرو پیدا نہیں کرے گی۔ مائوں کی کوکھ بنجر ہوجائے گی۔افسوس صد افسوس، ڈاکٹر قدیر خان کو ہم نے ایدھی اور روتھ پائو سے بھی کم تر بنا دیا۔وہاں پر سب لائن حاضرتھے۔ سُلوٹ مار رہے تھے۔ اب ایسا کیا ہوگیا کہ تمام لوگ غائب ہیں۔ زندگی ہے یہ کتنی جلد گزر جاتی ہے، سب ہی اپنا ، اپنا بویا کاٹ لیں گے۔اے اللہ اس سرزمین بشارت کی خیر ہو۔ ڈاکٹر قدیر خان کی لحد پر اپنے حبیبﷺ اور پیاروں کے صدقے ارب ہا نہیں، بے شمار رحمتیں نازل فرما اور اُن کے بے حساب درجات بلند فرما۔ اور ہمیں بطور قوم و ریاست معافی دے۔ اور آخر میں ڈاکٹر قدیرخان کے پسندیدہ شاعر جگر مراد آبادی کے اس شعر پر کالم ختم کرتا ہو۔جاں لٹائے ہی دے دی جگہ نے آج پائے یار پرعمر بھرکی بے قراری کو قرار آہی گیا